blog

قانون میں سب برابر

  • Date:

    Dec 17 2019
  • Writer by:

    Social Media Dawateislami
  • Category:

    Islamic Culture

تاریخ اسلام میں مسلمان قاضیوں(Judges) کے ایسے بے شمار واقعات موجودہیں جس میں انہوں نے کسی کے رتبے اور قرابت داری کی پرواہ کئے بغیر شریعت کے احکام کو نافذ کیا، جس کی وجہ سے معاشرے میں امن کا قیام اور جرائم پر قابو پانا آسان ہوا ۔۔۔ انہی واقعات میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے:

حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خلیفہ ولید بن یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کے قاضی (Judge) مقرر تھے ۔ایک مرتبہ ولید نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے پاس ملک شام میں بلایا، جب آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شام کی سر حد پر پہنچے تو ایک شخص کو دیکھا کہ شراب پی کر نشے کی حالت میں بدمست ہے اورمسجد میں گھوم رہا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا : ’’یہ شخص کون ہے ؟ لوگو ں نے بتا یا: یہ خلیفہ ولید بن یزید کا ماموں ہے ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بہت غصہ آیا کہ یہ کتنی دلیری سے اللہ پاک کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کے پاک دربار میں ایسی گندی حالت میں بے خوف گھوم پھر رہا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:’’ مجھ پر لازم ہے کہ میں اس پر شرعی سزا نافذ کروں چاہے یہ کوئی بھی ہو، اسلام میں سب برابر ہیں۔ چنانچہ آپ نے مسجد میں ہی اس کو80 کوڑے(whips) مارے ۔ وہ شخص80کوڑے کھانے کے بعد نہایت زخمی حالت میں خلیفہ ولید بن یزید کے پاس پہنچا۔ خلیفہ نے جب اپنے ماموں کی یہ حالت دیکھی تو بہت غضبناک ہوا اور پوچھا: تمہاری یہ حالت کس نے کی؟ اس نے جواب دیا: ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہوا تھا، اس نے مجھے80 کوڑے سزا دی اور کہا: یہ سزا دینا اور حد قائم کرنا مجھ پر لازم ہے۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو فوراً کچھ سپاہیوں کو لے کر ادھر پہنچ گیا اور کہا : اے ابو اسحاق ! تو نے میرے ماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا، اسے اتنی درد ناک سزا کیوں دی؟ انہوں نے فرمایا: اے خلیفہ! تونے مجھے قاضی بنایا تاکہ میں شریعت کے احکام نافذ کروں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دوں۔ چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ سرعام اللہ پاک کی نافرمانی کی جا رہی ہے اور یہ شخص نشے کی حالت میں اللہ پاک کے دربار میں گھوم پھر رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تو میری غیرت ایمانی نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی دیکھوں اور تمہاری قرابت داری کی وجہ سے چشم پوشی کروں اور شرعی حدو د قائم نہ کروں‘‘۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والاربعون بعد المائۃ، ص۱۶۳-۱۶۴، ملتقطاً)

اسلام کی یہی تعلیم تھی جس کی وجہ سے ہر شخص چاہے وہ کسی بڑے سے بڑے عہدہ دار یا امیر و کبیر کا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو ،قانون کو توڑتے ہوئے ڈرتا تھا ۔۔۔ کیونکہ قانون سب کے لئے برابر تھا ۔۔۔ اور اگر کوئی اپنے حواس کھو کر کوئی ایسا کام کر بھی جاتا تھا تو اسے قانون کی زد میں لا کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا تھا تا کہ کوئی اور مزید ہمت نہ کر سکے ۔

یاد رکھیں ۔۔۔! وہی مملکتیں امن و بھائی چارہ اور جرائم کو کمر توڑنے میں کامیاب ہوتی ہیں جہاں اسلامی قانون کی بالا دستی قائم ہو اور معاشرہ مثالی معاشرہ بن جاتا ہے ۔

اللہ پاک ہمیں اسلامی قوانین کی اہمیت، ان پر عمل اور ان کے نفاذ کی سعادت نصیب فرمائے ۔ آمین

Share this post:

(0) comments

leave a comment